کائنات رازوں کا مجموعہ:مولانا جن مزید بتانے لگے کائنات رازوں کا مجموعہ ہے او رازاصل حقیقت ہوتے ہیں اور بعض اوقات انسان حقیقتوں کو بھول کر دنیا کے مجاز میں چلا جاتا ہے اور جب مجاز میں جاتا ہے پھر حقیقت اس پر کبھی آشکار نہیں ہوسکتی۔ دل بھی ہے عجیب‘ دنیا بھی ہے عجیب‘ روح بھی ہے عجیب ۔۔۔یہ ساری باتیں مولانا نے ایک ہی سانس میں کہہ ڈالیں۔ مولانا جن مزید بتانے لگے: میں حیرت ،کھلی اور پھٹی آنکھوں سےیہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔وہ واقعی کائنات کا راز تھا: حیران۔۔۔ یہ کیا ؟یہ کیسی دنیا ہے۔۔۔! مولانا مزید بتانے لگے: وہاں کےایک بندے کو میں نے روکا میں اسے بندہ ہی کہہ سکتا ہوں کیونکہ نہ وہ انسان تھا‘ نہ جن نہ کوئی ا ور مخلوق۔۔۔ وہ کیا مخلوق تھی۔۔۔؟؟؟ اس کی شکل عجیب۔۔۔ چہرہ عجیب۔۔۔ ان کا لباس‘ ان کی رنگت ان کے کھانے ‘ان کے برتن۔۔۔ بس ان کی زندگی عجیب تھی‘ میرے پاس عجیب کے علاوہ اور کوئی لفظ نہیں کیونکہ بس میں اسے عجیب ہی کہہ سکتا ہوں اور واقعی وہ کائنات کا راز تھا۔اس مخلوق نے مجھے گلے سے لگالیا: میں نے انہیں کلمہ پڑھ کر سنایا کیونکہ مجھے ان کی آواز کی سمجھ تو آتی تھی کانوں میں پڑتی تھی پر میں سمجھ نہیں سکتا تھا اور میری آواز بھی ان کے کانوں میں پڑتی تھی اور وہ میری آوازسمجھ نہیں سکتے تھےجب میں نے کلمہ پڑھا تو ایک شخص نے مجھے بخوشی اپنے گلےلگایااور جب گلےلگایا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔۔۔ قرآن کا لہجہ اور طرز ایسی کہ میں دنگ:وہ یہ حیرت تھی کہ اس نے کلمہ پڑھا ۔۔۔پھر دوسرا کلمہ پڑھا ۔۔۔پھر تیسرا کلمہ پڑھا۔۔۔اس کے بعد اس نے قرآن پڑھنا شروع کردیا اس کے قرآن کا لہجہ اور طرز اور آواز میں وہ درد اور سوز تھا کہ اس درد اور سوز کو میں ایسا سمجھا اور اس میں ایسا ڈوبا۔۔۔ میری عقل دنگ رہ گئی۔ اس کے بعد عظیم مخلوق نے قرآن پڑھتے پڑھتے وہ سورۂ قریش پرآگیا اور انہوں نے سورۂ قریش پڑھی اور پڑھتے پڑھتے سورۂ قریش پر وہ خود ڈوب گیا اور میں بھی ڈوبا اور ایسا ڈوبا کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے اوپر سورۂ قریش کے راز و رموز اور اس کی کائنات کھلنا شروع ہوگئی ہے۔وہ چیز میرے سامنے کچھ نئی تھی: میں بہت دیر ان کے گلےلگا رہا اور انہوں نےمجھے اپنےگلے سےلگائےرکھا کچھ دیر کےبعد وہ مجھ سے جدا ہوگئے اور وہ چلے گئے۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس نگری‘ اس دیس‘ اس دنیا کو دیکھتا رہا حالانکہ ہم جن ہیں ہم دنیا پھرتے ہیںکائنات میں گردش کرتے ہیں اور وہ چیز بھی ہمارے سامنے کچھ نئی تھی۔۔۔ حالانکہ بہت سی چیزیں ہمارے سامنے نئی نہیں ہوتیں کیونکہ جنات کا مزاج ہے وہ ایک جگہ نہیں رکتے جو شریر جنات ہیں وہ دنیا میں پھر کر شر فساد برائی اور گناہ کی تلاش میں رہتےہیں اور صالح اور نیک جنات ہیں وہ کسی اللہ کے دوست‘ عبادت تسبیح اور باقی وقت اپنے روزی روزگار کیلئے گزارتے ہیں لیکن میں نے یہ دنیا کوئی انوکھی دیکھی جس کی ابھی تک خود مجھے سمجھ نہیں آرہی یہ کائنات کیا ہے؟ سورۂ قریش کے کمالات‘ برکات اور عظیم تفسیر:میں اس کو کیسے سمجھوں میری سمجھ میں نہ آئے جب وہ مخلوق میرے گلے سے ہٹی تو میں کچھ دیر کیلئے مدہوش ہوکر گرگیا اور گرتے ہی میری زبان سے سورۂ قریش کے کمالات‘ برکات اور اس کی عظیم تفسیر کھلنا شروع ہوگئی۔ نامعلوم میں کتنی دیر کے بعد اٹھا لیکن جب اٹھا تو میں اس وقت اس جہان میں نہیں تھا مجھے خبر نہیں مجھے کس قوت نے اٹھایا اور واپس اپنے وطن‘ دیس اور دنیا میں پہنچا دیا حالانکہ میں اس پراسرار دنیا میں گیا تھا۔ واپس اپنی دنیا اور وجدان کی کیفیت:لیکن واپس اپنی دنیا میں جب آیا تو میرے اوپر ایک وجدان کی کیفیت تھی اور دوسرے لفظوں میں کہوں تو مجھے ہوش نہیں تھااور یہ مدہوشی ہی کی حالت تھی کہ میرا ہاتھ کاغذ قلم کی طرف اٹھا اور میں نے سورۂ قریش کے کمالات اور برکات لکھناشروع کیں‘ یہ وہی کمالات اور برکات تھیں جو اس پراسرار مخلوق نے مجھے بتائیں تھیں اور میرے سامنے اس پراسرار مخلوق نے یہ کمالات اور برکات کھولیں تھیں۔
میرے اندر کاتجسس اور مخلوق کی امانت:میں بہت دیر لکھتا رہا اور اپنے لفظوں کو اور اپنی کیفیات کو سمیٹتا رہا لکھتے لکھتے آخرکار میں واپس اپنے شعور میں آیا تو میں نے جو لکھا تھا مجھے خود اپنے لکھے پر حیرت ہوئی۔ یہ کہہ کر وہ عالم جن خاموش ہوگیا۔ میرے اندر کے تجسس نے مجھے کچھ بولنے پر مجبور کیا۔ میں نے ان سے کہا اگر وہ لکھا مجھے مل جائے تو کہنے لگے ہاں میں سمجھتا ہوں امانت ہے اور مخلوق کی امانت ہے جو اللہ نے مجھ پر اچانک کھولی اور وہ امانت میں آپ تک ضرور پہنچاؤں گا۔ کہنے لگے: مجھے چند لمحےدیں قریب ہی میرا گھر ہے میں وہ امانت لےآتا ہوں وہ وہاں سے اچانک غائب ہوگیا اور میں اسی دوران دوسرے جنات سے کسی اور موضوع پر باتیں کرنے لگا۔وجدان اور نیم بیہوش کی حالت میں لکھی انمول کاپی: تھوڑی ہی دیر میں وہ آیا ایک پرانی سی کاپی اس نے مجھے دی اور کہا کہ یہ وہ کاپی ہے جو وجدان نیم بیہوشی کی حالت میں میں نے لکھی تھی اور جب اس کاپی کو میں نے کھولا اور اس کو پڑھنا شروع کیا خود میری حیرت کی انتہا نہ رہی اس کے پہلے لفظ خود یہی تھے اگر روحانی دنیا کے انوکھے بھید چاہئیں تو سورۂ قریش سے دوستی کرو۔۔۔ رزق کے دروازے عرش کے ساتھ لگے ہوئے ہیں‘ عرش والا سورۂ قریش کے لفظوں حرفوں لہجوں اور انداز کو بہت زیادہ پسند فرماتا ہے اور اس کی اگلی سطر میں لکھا تھا:آ۔۔۔ میں تجھے سورۂ قریش کا کمال بتاؤں: آ میں تمہیں سورۂ قریش کا ایک ایسا کمال بتاؤں جوزندگی میں تمہیں کہیں نہیں ملا تھا وہ یہ ہےکہ اگر چاہتے ہو کہ ساری کائنات کے خزانے جو زمین کے نیچے دفن ہیں اوروہ اللہ کے علم میں ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے تو پھر سورۂ قریش کو اپنی زندگی کا ایسا ساتھی بنائیں جو کبھی جدا نہ ہو۔۔۔ سفر ہو‘ زندگی ہو‘ موت کا آخری وقت ہو‘ کھانا ہو ‘پینا ہو‘ اولاد ہو‘ گھر ہو‘ جھونپڑی ہو‘ محل ہو۔۔۔ خاص وقت کا خاص عمل اور نسلیں کامیاب:اس کاپی میں مزید یہ بھی لکھا تھا اگر کوئی شخص سورۂ قریش کو اس وقت پڑھے جس وقت میاں بیوی کے ملنے کا وقت ہوتا ہے یعنی اس سے پہلے جب انسان اپنے لباس سے جدا نہ ہو اور صرف تین بار‘سات بار یا گیارہ بار پڑھ لے اس سے جو بھی اولاد پیدا ہوگی‘ وہ اولاد کبھی ننگی نہیں ہوگی اللہ ان کو
اچھا لباس دے گا‘کبھی بھوک نہیں ہوگی یعنی ان کو اللہ پاک بہترین کھانے دے گا کبھی خوفزدہ نہ ہوگی نہ غم سے نہ دشمن سے نہ کسی درندے سےنہ کسی جادو سے اور نہ ہی کسی مشکل سے اور ان کو بھوک کا خوف‘ غم کاخوف‘ چھننے کا خوف‘ لٹنے کا خوف‘ مشکلات کا خوف‘ پریشانیوں کا خوف اور مسائل کا خوف ان کو نہیں ہوگا اور زندگی ان کی آسودہ گزرے گی۔
وہ کاپی نہیں وہ توموتی تھے۔۔۔۔! وہ کاپی نہیں تھی وہ تو موتی تھے‘ میں پڑھتا جاتا تھا اور میرے سامنے حیرت کے سمندر کھل رہےتھے‘ میں اسے حیرت ہی کہہ سکتا ہوں ۔۔۔ کیاکہوں؟ اس مولانا جن کو میں نےمخاطب کیا :میں نے کہا واقعی آپ نے یہ کاپی اس غیبی مخلوق سے لی۔۔۔ کہنے لگے: آپ کو کیسے شک پیدا ہوگیا۔۔۔؟؟؟ کیا یہ کاپی مجھے مل سکتی ہے؟میں نے ان سے کہا میں حیران ہوں یہ کاپی آپ نے اتنی محبت ،پیار اور محنت سےلکھی ہے میں نے کہا کیا یہ ممکن ہے یہ کاپی مجھے مل جائے اور اس کے سارے نوٹ میں اپنے پاس نوٹ کرلوں اور آپ کو واپس کردوں۔ کہنے لگا: ہاں بس اتنا ہےیہ کاپی میں نے اپنی نسلوں کیلئے سنبھال کررکھی ہوئی ہے۔ بس یہ کہیں اور نہ جائے۔۔۔ اور یہ میرے پاس ہی رہے اور حقیقت یہی ہے اگر یہ میرے پاس رہے گی تو میری نسلوں کے کام آئے گی اور میری نسلیں اس سے موتی ہمیشہ چنتی رہیں گی۔ کاپی آئی ساتھ رزق ‘برکت لائی اور تنگدستی گئی۔۔۔! انوکھی بات اور بتائی جب سے یہ کاپی میرے پاس آئی ہے میرے رزق میں برکت’ میرے مسائل حل مجھے زندگی میں ترقیاں ملیں‘ حالات سنورے‘ زندگی سنوری میں نے غربت تنگدستی سے اپنے آپ کو نکلتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ میں نہیں نکل سکتا تھا‘ بہت کوشش کی لیکن نہیں نکل سکا اور اب ایسا نکلا کہ آج لوگ مجھے مالدار کہتےہیں۔۔۔ کوئی مجھے تنگدست نہیں کہتا‘ کوئی فقیر نہیں کہتا اور میں اپنی زندگی میں اسی تنگدستی اورفقیری سے نکلا ہوں اور ایسا نکلا ہوں کہ میں آگے سے آگے بڑھا۔۔۔ حالات نے مجھے بہتر سےبہتر بنا دیا۔۔۔کاپی پر ایک نکتہ پڑھا اور اس پر نظر رک گئی۔۔۔ میں یہ باتیں کرکے پھر کاپی کی طرف متوجہ ہوا اس کاپی کو میں نے کھولا بہت کچھ اس میں لکھا ہوا تھا‘ ایک نظر اس نکتہ پر بھی پڑی وہ نکتہ یہ تھا کہ سورۂ قریش کو جب چودھویں رات کاچاند ہو اور موسم گرما کا ہواور صحن میں سورہےہوں تو چاند کو دیکھتے ہوئے یہ سورۂ پڑھتے رہیں۔۔۔ پڑھتے رہیں۔۔۔ پڑھتے رہیں۔۔۔ اور اپنی چار مرادوں کو دل میں لے کر پڑھتے رہیں۔۔۔ مراد نمبر ایک: فاقہ ،تنگدستی ،غربت، معاشی مسائل،کاروباری مسائل، روزگار کے مسائل، تنگدستی کے مسائل۔ مراد نمبر دو: خوف کسی انسان سے‘ کسی جانور سے اور کسی جن سے یا لٹنے کا خوف‘ گمراہ ہونے کا خوف‘ فتنوں کا خوف‘ مشکلات کا خوف‘ پریشانیوں کا خوف‘ زندگی کی ناکامیوں کا خوف۔۔۔ تیسری مراد : آپ کو کہیں سے امن چاہیے اور اپنے آپ کو ہر حال میں تنگدست اور بے حال محسوس کرتے ہیں اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ زندگی کے اس گوشے میں پہنچے جہاں کوئی آپ کا ساتھی اور مدد گار نہیں اور آپ کو کوئی حاصل کرنے والا اور ساتھ دینا والا نہیں اورآپ سمجھتے ہیں کہ آپ تنہا ہوگئے ہیں۔۔۔ چوتھی مراد: آپ گناہوں کی گمراہی میں اور زندگی کی ذلتوں میںیا پھر بد سے بدتر زندگی میں آپ چلے گئے ہیں اور ولایت چاہتے ہیں‘ فقیری چاہتےہیں‘تعلق چاہتے ہیں‘ نسبت احسان چاہتے ہیں آپ رات کی تنہائیوں میں آنسو چاہتے ہیں۔۔۔ دعا کا لفظ چاہتے ہیں۔۔۔ دعا کا اہتمام چاہتےہیں۔۔۔ دعا کی طاقت چاہتے ہیں اور دعا کی تاثیر چاہتے ہیں بس۔۔۔ میرا گھر‘ میرا تن‘ میرا من بے روشن:سورۂ قریش بلاتعداد چاند کو دیکھتے ہوئے پڑھیں اور بس ایک تصور ضرور کریں کہ مولا چاند کچھ نہیں‘ مخلوق ہے ۔۔۔تو خالق ہے اور تو نے اس چاند میں روشنی ڈالی۔۔۔ مولا !میرا گھربے روشن۔۔۔ میرا تن بےروشن۔۔۔ میرا من بے روشن۔۔۔ میری زندگی میں اندھیرا‘ میری راہوں میں اندھیرا‘ میری آنکھوں میں اندھیرا۔۔۔ میری نسلوں میں اندھیرا۔۔۔ مجھےغربت کا اندھیرا۔۔۔ مجھے تنگدستی کا اندھیرا۔۔۔ مجھے گناہوں کا اندھیرا۔۔۔ مشکلات کا اندھیرا۔۔۔ خوف کا اندھیرا۔۔۔ ذلتوں کا اندھیرا۔۔۔ ظلمتوں کا اندھیرا۔۔۔ ناکامیوں کا اندھیرا۔ میرے اوپر چھا گیا ہے تو جس طرح اپنی تجلی سے چاند کو روشن کرتا ہے اس سورۃ کی برکت سے اپنی تجلی بھیج اور میرا سب کچھ روشن کردے اور مجھے روشنی دے دے ۔ عمل کا طریقہ:ہر چاند کی بارہ، تیرہ اور چودہ کو اگر یہ عمل کرتے رہیں تین دن کریں یا ہر چاند جب بھی روشن ہو دس دن کریں یا کم از کم چودھویں کی چاند کی رات کو کریں اور یہ باتیں کرتے کرتے سوجائیں اور اگر آپ چاند کو نہیں دیکھ پاتے آپ کے پاس وہ ماحول نہیں کہ جس میں چھت یا صحن میسر ہو لیکن چودھویں کا چاند ہے اور تاریخ چودھویں کی ہے تو پھر تصور تصور میں یہ عمل کرتے کرتے لیٹ جائیں چاہےچاند نظر نہ بھی آئے لیکن یہی تصور ہو اور یہی عمل آپ کرتے چلے جائیں۔ اپنی نسلوں میں یہ عمل ضرور سکھانا: اپنی نسلوں میں یہ عمل ضرور سکھانا اس کاپی میںلکھا ہوا تھا کیونکہ آپ تو پاگئے اگر نسلیں نہ پائیں تو پھر آپ بھی پاکر آخر کتنا پائیں گے۔۔۔ نسلیں آپ کی شادو آباد ہوجائیں گی اور اس کو اگر زندگی بھر کا معمول بنالیں تو آپ پر وہ خیروبرکت کی ر اہیں کھلیںگی اور آپ پروہ رحمت کی اور برکت کے راستے کھلیں گے جنہیں آپ نے کبھی سوچا اور پایا نہ ہوگا۔ دل کی سیاہی مٹانے کا لاجواب عمل: اس کاپی میں لکھا تھا دل کے اوپر ایک نقطہ ہوتا ہے جو گناہ سے آتا ہے اور گناہ بڑھتے بڑھتے نقطے بڑھتے چلے جاتےہیں ان نقطوں کو مٹانے کیلئے سورۂ قریش کے اوپر جتنے نقطے ہیں یعنی اس کےلفظوں پر جتنے نقطے ہیں اتنی بار دل کے نقطوں کو مٹانے کیلئے روزانہ کسی بھی وقت سورۂ قریش پڑھیں لیں کہ جتنے نقطےاتنی بار سورۂ قریش‘ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے دل پر کتنے کالے نقطے ہیں بس سورۂ قریش کے نقطوں کے بقدر جتنے اس پر نقطے ہیں اتنی تعداد میں سورۂ قریش پڑھیں اور پڑھتے چلے جائیں آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپ کا دل کتنا زیادہ مالا مال ہوگا‘ صحت مند ہوگا اور برباد دل کیسے آباد ہوگااور آپ کے دل کو کیسے صحت‘ تندرستی‘ راحت‘ رحمت‘ برکت‘ شفاء‘ دل کی بیماریاں دور اور دل کی روحانی بیماریاں خطرناک بالکل ختم ہوجائیں گی۔ مزید کاپی کی باتیں آئندہ ۔ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں